People Reacts on This Case - Random Thoughts
میں نے اپنے گاؤں میں ایسے دو کیسز فیس کئیے ہیں۔ اور وہ دونوں تقریباً میرے ہم عمر تھے۔
گاوں والے جانتے ہونگے کہ میں عمر اور ابوبکر (مرحومین) کی بات کررہا ہوں۔ اور ان دونوں کے اس اقدام کی وجوہات کیا تھیں یہ علاقہ جانتا ہے۔ اور یہ بھی پورا علاقہ جانتا ہے کہ وہ دونوں اپنی فیملیز کیساتھ کتنے مخلص تھے اور انکی فیملیز فائنینشل طور پہ کتنی سٹرونگ ہیں۔
ایڈٹ کر کے لکھ دیتا ہوں کہ ان دونوں لڑکوں کے کیسز میں ہوا یوں تھا کہ انکے فیملیز کی انائیں سامنے آئی تھیں۔ ان دونوں نے ایک ایک دنیاوی جائز خواہش کی تھی۔ اور خواہش بھی ایسی کہ جسے ماں باپ اسکے آنکھ جھپکنے پہ پوری کر سکتے تھے۔ دونوں خواہشات فائنانس سے ریلیٹڈ تھیں۔ جائز مطالبات تھے۔مطلب کہ دونوں فیملیز فائنینشلی طور پہ اتنی مظبوط تھیں مگر اسکے باوجود انہوں نے جوان جہان بیٹوں کی خوشیوں اور زندگی پہ دولت کو ترجیح دی۔ ان دونوں نے اپنے فیملیز کے لئیے بے حد محنت کی تھی۔ اور سچ میں کی تھی۔ حاصل کیا ہوا؟
پچھتاوا ! مگر لعنت ہو ایسے پچھتاوے پہ۔
کون چاہتا ہے وہ ہستی بستی دنیا اجاڑ بیٹھے ؟
کون چاہتا ہے وہ دنیا کی رنگینیاں خود بجھا کر اندھیروں میں جا کر بسیرا کرلے۔
صرف وہ چاہتا ہے جسکی تھکن اس لیول پہ آن پہنچی ہو کہ اسکو سکھ اور سکون کا ایک لمحہ تک نصیب نا رہے۔
اس طرح کے تمام کیسز کے قاتل ہماری فیملیز ہوتی ہیں۔ جنکو برا لگتا ہے لگے مگر یہ سچ ہے۔
ہم مڈل کلاس ذمہ دار لڑکوں کے دماغوں میں ایک بات سیٹ کردی جاتی ہے کہ یہ آٹھ دس لوگ اب تمہاری ذمہ داری ہیں۔ تم نے ناؤ چلانی ہے انکو بٹھا کر اور پار لگانا ہے۔ ہماری ذہنیت میں یہ باتیں ٹھونس دی جاتی ہیں کہ بڑا بیٹا یا کمانے والا بیٹا خوشی کے نام کے قریب بھی نا جائے کیونکہ وہ قربانیاں دینے کے لئیے جنا گیا تھا ۔ اسکی اپنی زندگی کوئی زندگی تھی ہی نہیں۔ اسکو جوان کیا گیا تھا تا کہ وہ پورے ٹبر کا ٹھیکہ لے سکے اور انکو خوش کرتے کرتے مر جائے۔
اس سب کے پیچھے اولین ذمہ دار ہماری فیملی ہی ہوتی ہے۔
آپ کتنے بھی بہادر ہوں، کامیاب ہوں پیسے والے ہوں سہولتوں والے ہوں نوکر چاکروں والے ہوں مگر آپ کو اگر فیملی کی طرف سے سکون میسر نہیں تو آپ بلکل ناکارہ ہیں۔
لیکن اسی کے برعکس آپ کو اگر آپکے فیملی ممبرز کی طرف سے سکون میسر ہے تو آپکے پاس اگر دولت کی کمی بھی ہے تو سکون ہوگا۔ کامیابی ہوگی۔ اطمینان ہوگا۔ آپ دنیا سے مشکلات سے تنگ دنوں سے لڑ سکنے کی سکت رکھتے ہونگے۔
مگر افسوس کہ ہمارے فیملیز میں اگر کمانے والا اپنی خوشی کے لئیے اگر سو روپے بھی خرچ کر لیتا ہے یا کچھ انوکھا کر لیتا ہے تو اسے ساری زندگی یہ بوجھ بنا کر باور کروایا جاتا ہے کہ اگر وہ سو روپے تم اپنے پہ خرچ نا کرتے تو کوئی چیز آجاتی ۔
خدارا ! آپکے والد یا آپکا بھائی اگر اس دور میں آپکی ذمہ داریوں یا بنیادی ضروریات کا خیال ہی کر رہے ہیں تو انکا ساتھ دیجئیے۔ انکے لئیے سکون کے مواقع پیدا کریں۔ انکے واسطے گھر میں ایک سکون کا سا ماحول بنا کر رکھیں۔ انکے لئیے دعائیں کریں۔ وہ آپکو یہ نہیں کہتے کہ میرے جتنا کما کے لاؤ ۔ وہ بس یہ چاہینگے کہ آپ انکے لئیے مخلص رہیں اور انکو سکون میں رکھیں۔
Comments
Post a Comment