یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب روسٹرم پر موجود وکیل بظاہر تو پرسکون کھڑا ہوتا ہے لیکن اس کا دل کر رہا ہوتا ہے کہ خوشی سے جمپ لگانا اور نعرے لگانا شروع کر دے۔
راو عبدالرحیم کا بیان کہ اغوا ہونے سے چند لمحے قبل وہ مقتول عبداللہ شاہ سے رابطے میں تھا۔ عدالتی کارروائی میں یہ وہ لمحہ ہے جب وکلا اپنے ہی ایک کولیگ کو گھیر گھار کر اس نقطے پر لے ہی آئے جسے وہ اسٹیبلش کرنا چاہتے تھے۔ راو کے دوسری طرف کھڑے وکلا کے چہرے پر خوشی دیکھیے اور راو کے چہرے کی ہوائیاں دیکھیے۔ وکلا ایمان مزاری سے مائیک لے کر بولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ٹھیک کر رہی ہے کہ انہیں مائیک نہیں دے رہی اور کہہ رہی ہے کہ چپ رہو۔ راو کو بولنے دو۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وکیل صفائی کا بولنے سے خاموش رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ سچ خود ہی سامنے آ رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب گواہ کو جذباتی کر کے یا دلائل اور دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر اس بات پر لے آیا جاتا ہے جس سے وہ انکار کر رہا ہو۔ یہ وہ لمحہ ہے جب راو صاحب پھٹ پڑے۔ ہاں میں توہین مذہب کے ملزم سے اغوا اور قتل ہونے سے پہلے رابطے میں تھا۔ کس حیثیت سے؟
ہمارا پہلے دن سے مدعا یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ٹریپ کیا گیا ہے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے توہین کے مرتکب نہیں ہوئے۔ ان سے یہ کروایا گیا۔ انہیں پھنسایا گیا۔ انہیں اغوا کیا گیا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان سے سادہ کاغذوں پر دستخط لئے گیے۔ تشدد کے ذریعے ان کے "اعترافی" ویڈیو بیان ریکارڈ کئے گئے۔ ٹریپ اور اغوا کرنے والے آج تک مسلسل انکار کرتے رہے کہ انہوں نے خود ان کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ ایف آئی اے خود یہ کارروائیاں کرتی رہی۔ راو کا آج کا بیان اس سارے موقف پر پانی پھیر گیا۔ اور دوسری طرف کے وکلا جو بات ثابت کرنا چاہتے تھے وہ واضح ہو گئی۔
عبداللہ شاہ توہین مذہب و رسالت کا ملزم تھا تو اغوا ہونے سے پہلے راو سے رابطے میں کیوں تھا اور اس آخری رابطے کے بعد قتل کیسے ہو گیا؟
سچ کا بول بالا ہو۔
طاہر چودھری،ایڈووکیٹ۔
Tags:
Blasphemy Business case