chacha mukhtayar Software updated

مُردہ ریاست کی بےحسی میں ایک چیخ کی خبر !
چاچے مختار نے جو کہا " ایسا مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا"
یہ جملہ کئی دانشوروں سے آپ سن چکے ہونگے!
چاچے نے جو کہا وہ سب ہم دوستوں میں بیٹھ کر سارا دن کہتے ہیں ، فرق صرف اتنا ہیکہ چاچے نے کہا "اینہوں نیٹ تے چڑھا دیو" جبکہ ہم اپنے ہاتھی والے دانت  دکھا کر جعلی اخلاقیات کا پرچار کرتے اور معاشرے کا اچھا فرد بننے واسطے منہ پہ سچ بول سکتے 
 !ہیں نہ لکھ سکتے ہیں
چاچے جو کہا وہ مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا
انہیں کوئی بتائے ! کہ مہذب معاشروں میں ۱۷ سیٹوں والے حکومت بھی نہیں بناتے
انہیں کوئی بتلائے کہ ۲٤ کروڑ کے ساتھ جو زبردستی نکاح متعہ آپ نے کروایا ایسا بھی مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا
انہیں کوئی بتلائے کہ مہذب معاشروں میں کرپٹ اور چور کچرا کنڈیوں میں ملتے ہیں اسمبلیوں میں نہیں 
انہیں کوئی بتلائے کہ مہذب معاشروں میں ماؤں اور بہنوں کو سڑکوں پہ نہیں گھسیٹا جاتا
انہیں کوئی بتلائے کہ مہذب معاشروں میں ستر سالہ کینسر کی مریضہ ماؤں کو حبس بےجا میں نہیں رکھا جاتا
انہیں کوئی بتلائے کہ مہذب معاشروں میں سوال اٹھتے ہیں لاشیں نہیں 
انہیں کوئی بتلائے کہ مہذب معاشروں میں ریاست عام آدمی کی جان و مال کا تحفظ کرتی ہے نہ کہ اغواء تشدد اور پھر گمنام موت۔۔۔۔
چاچے نے جو کہا وہ مہذب معاشروں میں نہیں ہوتا، بس اب اتنا دیں کہ آپ نے جو کیا ، کیا وہ سب مہذب معاشروں میں ہوتا ہے؟

شنید ہیکہ چاچے نے معافی بھی مانگ لی، یہ انکی اعلی ظرفی کی بہترین مثال ہے(بیشک خوف کی معافی ہو)
مگر سوچنے کی بات یہ ہیکہ کیا ان قومی مجرمین نے بھی اپنے غیض وغضب پر کبھی قوم سے معافی مانگی؟
انکو کسی نے چپیڑیں نہیں ماریں ، جو کہ موجودہ عوامی غیظ و غضب کے حالات میں بعید نہیں۔
ویسے بھی ! مزاحمت ہمیشہ تلخ ھوتی ھے، اس میں غصہ، غیظ و غضب، بے زاری اور ناپسندیدگی ھوتی ھے، عام آدمی کے پاس قوتِ نافذہ نہیں ھوتی کہ وہ کسی مجرم سیاستدان یا اس کے شریکِ جرم کو پکڑ کر کسی عوامی جیل میں ڈال سکیں، یا اپنی عدالت سجا کر اس کا مواخذہ کر سکیں، عوام کی طرف سے لعن طعن کا نعرہ ہی اس سیاسی مزاحمت کا حصہ ہوتا ھے
اگر کوئی جسمانی تشدد کرتا تو قابل مواخذہ ھو سکتا تھا،
لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ھے کہ سیاستدان اور ریاستی بندوبست میں طاقتور طبقہ تو وقت آنے پہ مخالف رائے رکھنے والوں کے خلاف ریاستی مشینری استعمال کر کے تشدد کا رستہ بھی اختیار کر سکتا ھے، جیسا کہ ماڈل ٹاؤن میں اپنی انا کی تسکین کیلئے سترہ لاشیں گرا دی گئیں، عمران خان کے ہزاروں لاکھوں لوگوں پر گھروں میں گھس کر تشدد کیا جاتا ہے، جب کہ عام آدمی کے پاس اس منظم بدمعاشی کے خلاف مزاحمت کے طور پہ کسی راست اقدام کا آپشن نہیں ھوتا، ایسے میں جب لوگوں کو پتا ھے کہ کون چور ھے اور کون ان کا کاسہ لیس تو پھر لوگ مزاحمت کیلئے نعرے بھی لگائیں گے ، گالیاں بھی دینگے اور شرم بھی دلائیں گے۔ یہ کہاں کا انصاف ھے کہ ایک طبقہ اپنے سیکورٹی حصار میں ہر طرح کی غنڈہ گردی کرنے کا اختیار رکھتا ھو اور یہ بالکل ایک اخلاقی سوال نا ھو، جب کہ دوسری طرف خالی ہاتھ عوام زبان سے بھی ان مجرمین کو کچھ نا کہہ سکیں؟

!اور دوسرا یہ ہیکہ قومیں اپنے رہنماؤں سے ہی سیکھتی ہیں
اسمبلی فلور پر ایک بڑی پارٹی کا لیڈر جب دوسری پارٹی کے سربراہ کو بےغیرت کہے
دوسری پارٹی کی سربراہ جلسوں میں مخالف لیڈر کو فتنہ خان کہے
 ملک کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ جس میں عوام انہیں الیکٹ کرکے بھیجے وہاں مخالف عورتوں کو ٹریکٹر ٹرالی اور پیلی ٹیکسی کہا جائے
اسمبلی کے اندر ایک اسمبلی ممبر دوسرے اسمبلی ممبر پر ہم جنس پرستی کے الزام لگائے
یہ سب کچھ ٹھیک ہے، مگر عام آدمی انہی میں سے کسی کو چار حرف بھیج دے تو دنیا جہان کے بھاشن اور اخلاقیات کے درس انہی عوام کو دیے جاتے ہیں

جس طرح راتوں رات چوروں نے ایک عوامی حکومت کا تختہ الٹا، اور پھر ریاستی جبر کیساتھ ستر سیٹوں کو اکثریت میں بدلا، اگر اس جابر حکومت کے کسی وزیر یا نمائندے کو اپنے لئے عوامی حمایت کا زعم ھے تو کسی عوامی مقام پہ نکل کر دکھائیں، خدانخواستہ بات گالیوں تک نہیں رہے گی۔۔۔۔

 !حضور والہ 
جرم کیا ہے تو مجرم کا لفظ سننے کیلئیے کانوں کو راضی کر لیجئیے، حالات وہ نہیں رہے ، رند کو اب شیخ نہیں پکارا جاۓ گا۔
SK Shahzaib Khalid

Welcome to BlogBySK.com - Where Trends Meet Creativity I’m a passionate Social Media Activist, Graphic Designer, and a curious mind who loves to write on trending topics. At BlogBySK.com, I blend my creativity with real-time trends to bring you content that’s fresh, engaging, and thought-provoking.

Post a Comment

Previous Post Next Post