یہ بات بظاہر ہلکی پھلکی لگتی ہے مگر اس میں ایک گہری انسانی کیفیت جھلکتی ہے۔ دبئی میں ایک صاحب بتاتے ہیں کہ وہ کبھی ایک ہی نائی کے پاس زیادہ عرصے تک بال نہیں کٹواتے۔ وجہ یہ ہے کہ جب آپ کسی ایک نائی کو بار بار منتخب کرتے ہیں تو وہ آپ کی شخصیت اور وقت کے بدلتے ہوئے پہلوؤں کو بہت قریب سے دیکھنے لگتا ہے۔ وہ پرانی باتیں دہرانے لگتا ہے، جیسے: "ابرار بھائی، آپ کے بال پہلے کتنے گھنے تھے، اب تو کم ہوتے جا رہے ہیں۔"
یہ جملہ بظاہر ایک سادہ سی گفتگو ہے مگر سننے والے کے دل پر ایک کچوکہ سا لگا جاتا ہے۔ انسان وقت کے ساتھ بدلتا ہے، چہرے کی جھریاں، بالوں کی کمی، آنکھوں کی تھکن — یہ سب زندگی کی گواہیاں ہیں۔ مگر جب کوئی دوسرا ان بدلاؤں کو ہمارے سامنے زبان دے کر یاد دلاتا ہے تو یہ احساس کبھی کبھی بوجھل بھی ہو جاتا ہے۔
اسی لیے بہت سے لوگ ان باتوں سے بچنے کے لیے جگہ اور لوگوں کو بدلتے رہتے ہیں۔ اصل میں یہ صرف نائی یا بالوں کی بات نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا عکس ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ دوسروں کی نگاہ میں وہی پرانی تازگی، وہی پرانا تاثر قائم رہے۔ ہمیں وقت کے گزرنے کی حقیقت معلوم ہے، مگر دل چاہتا ہے کہ کوئی اس کا ذکر نہ کرے۔
یہ رویہ ایک طرح سے انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ اپنی جوانی، اپنی خوبصورتی یا اپنی طاقت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھ سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت کا بہاؤ کسی کے لیے نہیں رکتا۔ دبئی کے اس قصے میں چھپی بات یہی ہے کہ ہم دوسروں کے سامنے اپنی کمزوری یا وقت کے نشانات ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گفتگو میں تازگی ہو، نہ کہ پرانی یادوں کے آئینے میں اپنا بدلا ہوا عکس۔
بالآخر یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان چاہے جہاں بھی ہو، اس کے اندر وقت کے گزرنے کا ایک خوف، ایک حساسیت ضرور موجود رہتی ہے۔ اور یہ احساس کبھی ایک نائی کی عام سی بات سے بھی دل کو چھو جاتا ہے۔