دشمن کے وار، اولیاء اللہ کا صبر اور دشمن کی شامت
تحریر: (صاحبزادہ سید حمزہ احمد شاہ بخاری آستانہ عالیہ جلال پور شریف)
دنیا میں جب بھی کوئی اللہ کا نیک بندہ، یعنی ولی اللہ پیدا ہوتا ہے، وہ لوگوں کی بھلائی، محبت، دعا اور خدمت کا راستہ اپناتا ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی رضا اور بندوں کی اصلاح ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ان نیک لوگوں کا وجود برداشت نہیں ہوتا۔ وہ ان کی مخالفت کرتے ہیں، الزام تراشی کرتے ہیں، اور بعض اوقات ظلم و ستم پر بھی اُتر آتے ہیں۔
ایسے موقع پر ولی اللہ بدلہ لینے یا لڑنے کے بجائے صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ وہ خاموشی سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ربّ العالمین ان کا معاملہ خود سنوار دے۔ ان کا یقین ہوتا ہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ایک دن ضرور حق کا بول بالا ہوگا۔ یہی صبر ان کی طاقت بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی مدد خود فرماتا ہے۔ وہ کبھی انہیں اکیلا نہیں چھوڑتا۔ جو لوگ ولیوں کو تنگ کرتے ہیں، اللہ ان سے خود بدلہ لیتا ہے۔ کبھی وہ دشمن دنیا میں ہی ذلیل و رسوا ہوتا ہے، اور کبھی آخرت میں عذاب کا شکار بنتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اللہ کے ولیوں کو ستایا، وہ خود تباہ و برباد ہو گیا۔
کربلا کی جنگ اس کا روشن ثبوت ہے۔ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء نے بے پناہ ظلم برداشت کیا، مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ یزید جیسے ظالم نے طاقت کے زور پر لڑائی تو جیت لی، لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ذلت اس کا مقدر بن گئی، اور امام حسینؓ ہمیشہ کے لیے عزت اور حق کا نشان بن گئے۔
اسی طرح حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی زندگی میں بھی بہت سی آزمائشیں آئیں۔ لوگوں نے الزام لگائے، راستے بند کیے، لیکن آپ نے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھا۔ صبر کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو وہ مقام عطا فرمایا کہ صدیوں بعد بھی دنیا آپ کے فیض سے مستفید ہو رہی ہے۔
حضرت رابعہ بصریہؒ پر بھی لوگوں نے کئی طرح کی باتیں کیں، مگر آپ نے کبھی کسی کو جواب نہ دیا۔ ہر بات کو اللہ کے حوالے کر دیا اور عبادت، ذکر اور صبر میں اپنا وقت گزارا۔ آخرکار اللہ نے انہیں روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا۔
نتیجہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ کا صبر ہی ان کی اصل پہچان ہے۔ وہ دنیاوی دشمنوں کی پرواہ نہیں کرتے، بلکہ صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اور اللہ انہیں ضائع نہیں کرتا۔ جو لوگ اولیاء اللہ سے دشمنی کرتے ہیں، وہ خود اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ اور جو ولیوں کی عزت کرتے ہیں، اللہ انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ"
(سورہ یونس: 62-63)
ترجمہ: "خبردار! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔"
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہے کہ اللہ کے ولی اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی حفاظت خود ربّ ذوالجلال فرماتا ہے۔
دنیا میں ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ اللہ کے ولیوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دشمنوں نے ان پر حملے کیے، الزام لگائے، تکلیفیں دیں، مگر ان کے صبر نے انہیں بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اللہ نے ان کے دشمنوں کو دنیا و آخرت میں ذلیل کیا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
"أشد الناس بلاءً الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل
(سنن ترمذی، حدیث: 2398)
ترجمہ: "سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء پر آتی ہیں، پھر ان کے بعد سب سے افضل لوگوں پر۔"
یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے، اسے آزماتا ہے۔ اولیائے کرام بھی انہی راستوں کے مسافر ہیں، اس لیے ان پر بھی آزمائشیں آتی ہیں، لیکن ان کا صبر اللہ کو محبوب ہوتا ہے۔
قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے
"إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا"
(سورہ الحج: 38)
ترجمہ: "بے شک اللہ ایمان والوں کی طرف سے خود دفاع کرتا ہے۔
حضرت امام حسینؓ اور کربلا کے شہداء کی مثال تاریخ میں روشن ہے۔ انہوں نے حق پر قائم رہتے ہوئے جانیں قربان کیں، لیکن صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ یزید نے ظلم کیا، لیکن اللہ نے امام حسینؓ کو حق اور عزت کا نشان بنا دیا، اور ظالم کو لعنت زدہ کر دیا۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ پر بہت سے حسد کرنے والوں نے الزامات لگائے، مگر آپ نے کبھی بددعا نہیں کی۔ ان کا صبر اور استقامت ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں "غوث الاعظم" کے بلند مقام پر فائز فرمایا۔
حضرت رابعہ بصریہؒ کے صبر کا عالم بھی مشہور ہے۔ آپ نے دنیا کی باتوں کی پروا نہ کی، صرف اللہ کی محبت میں زندگی گزار دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی روحانیت عطا فرمائی کہ بڑے بڑے علماء اور صوفیاء ان کے علم سے فیض حاصل کرتے رہے۔
یہی اللہ کا وعدہ ہے
وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
(سورہ قصص: 83)
ترجمہ: "اور انجام پرہیزگاروں کا ہی اچھا ہوتا ہے۔"
جو لوگ اولیاء اللہ سے دشمنی کرتے ہیں، ان کے لیے نہ دنیا میں سکون ہے، نہ آخرت میں نجات۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ"
(سورہ المجادلہ: 5)
Tags:
Syed Hamza Ahmed